Saturday 23 January 2016

میں نے ڈوبتے ہوئے سورج سے پوچھا

میں نے ڈوبتے ہوئے سورج سے پوچھا
آج توں اتنا پرکشش کیوں نہیں لگ رہا
ہلکی ہلکی ہوا بھی ویسی ہی چل رہی ہے
اور پرندوں کے غول بھی اپنی واپسی پر رواں ہیں
وہی درختوں کی اوٹ، اور وہی تیری لالی
اور تلسم تاریکی بھی وہی، اور موسموں کا بدلنا بھی وہی ہے
مگر ان سب میں اک اداسی بھری ہوئی ہے


میری طرف دیکھا اور مسکراہتے ہوئے کہنے لگا
بلا میری اتنی جرات کہاں
میری تو ابد سے آخر تک اک ہی روٹین ہے
نہ کبھی بدلا اور نہ کبھی اس کے حکم تک بدلوں گا
یہ تو تیرے اپنے دل کے موسم ہیں جو بدلتے رہتے ہیں
تم کبھی اپنے دل کے موسموں پر غالب تو آنا
تم کشش بھی پاؤ گے، وہی نظارہ، وہی طلسم بھی

یہ سن کر میں پشیمانی سے چل دیا
اندر جھانک کر دیکھا تو دل پر انجانے موسموں کا غلبہ تھا