Monday 2 May 2016

Life without purpose بغیر مقصد زندگی


انسان کی زندگی میں کبھی کبھی ایسا وقت آتا ہے جب وہ جو کچھ بھی کر رہا ہوتا ہے وہ احساس سے بلکل عاری ہوتا ہے- نہ اس کو وقت گزرنے کا احساس ہو رہا ہوتا ہے، جو کہ بڑی تیزی سے گذر رہا ہوتا ہے، اور نہ ہی اپنے کام کا جس سے اتنا دل اچاٹ ہو جاتا ہے کہ احساس نام کی کوئی چیز نہیں رہ جاتی۔ بس اس کا جسم ہوتا ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کچھ محسوس کیے چلتا رہتا ہے۔ ٹانگیں ہوتی ہیں جو نہ جانے کیوں بلاوجہ حرکت کرتی رہتی ہیں-


جب زندگی میں کسی چیز کا جذبہ نہیں رہتا، مقصد نہیں رہتا تو پھر ایسا ہوتا ہے - بغیر مقصد کے زندگی ایسے ہی ہے جیسے بغیر روح کے جسم – مقصد ہوتا ہے تو انسان کی زندگی میں اک جذبہ ہوتا ہے جو اس کی روح کو تسکین دیتا ہے اور اس کے جسم کو اک نئی قوت۔


 ہم زندگی میں بہت سے مقصد بناتے ہیں مگر پھر ان منزلوں تک پہنچتے پہنچتے کہیں رستوں میں ہی بھٹک جاتے ہیں کیوں کے وہ مقصد کبھی ہمارے تھے ہی نہیں – ہم دوسروں کو دیکھ کر اپنی منزلیں چنتے ہیں ہم اپنے اندر کی آواز سن کر منزل نہیں چنتے۔ ہم سوچتے ہیں کی ہماری منزلوں کو دیکھ کر لوگ پتہ نہیں کیا کہیں گے۔ ہم اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ہم اپنے اندر کی آواز کو وہیں دفن کر دیتے ہیں اور پھر ساری زندگی افسوس کرتے گزارتے رہتے ہیں۔ پھر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب انسان پھر سے اپنی منزل کی طرف لوٹنے کی سوچتا ہے لیکن پھر وہ یہ سوچ کر کے اب تو میں بہت آگے آگیا ہوں اپنی آواز کو دبا دیتا ہے اور یونہی گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتا چلا جاتا ہے –



اگر ہم اس طرح زندگی نہیں گزار سکتے جس طرح ہمارا من کہتا ہے ، جس سے ہماری روح کو تسکیں پہنچتی ہے اور اک نیا ولولہ پیدا ہوتا ہے  تو پھر یہ سب کچھ اک اداکاری ہے آپ جتنے اچھے اداکار بن جاتے ہو اتنا زیادہ ہی آپ دوسروں کی نظروں میں ایک خوش باش اور اچھا انسان بن سکتے ہو مگر اندر ہی اندر سے مرتے چلے جاتے ہو وہ الگ بات ہے اگر آپ ب حسی میں بھی آگے نکل گئے ہو۔  

Saturday 23 January 2016

میں نے ڈوبتے ہوئے سورج سے پوچھا

میں نے ڈوبتے ہوئے سورج سے پوچھا
آج توں اتنا پرکشش کیوں نہیں لگ رہا
ہلکی ہلکی ہوا بھی ویسی ہی چل رہی ہے
اور پرندوں کے غول بھی اپنی واپسی پر رواں ہیں
وہی درختوں کی اوٹ، اور وہی تیری لالی
اور تلسم تاریکی بھی وہی، اور موسموں کا بدلنا بھی وہی ہے
مگر ان سب میں اک اداسی بھری ہوئی ہے


میری طرف دیکھا اور مسکراہتے ہوئے کہنے لگا
بلا میری اتنی جرات کہاں
میری تو ابد سے آخر تک اک ہی روٹین ہے
نہ کبھی بدلا اور نہ کبھی اس کے حکم تک بدلوں گا
یہ تو تیرے اپنے دل کے موسم ہیں جو بدلتے رہتے ہیں
تم کبھی اپنے دل کے موسموں پر غالب تو آنا
تم کشش بھی پاؤ گے، وہی نظارہ، وہی طلسم بھی

یہ سن کر میں پشیمانی سے چل دیا
اندر جھانک کر دیکھا تو دل پر انجانے موسموں کا غلبہ تھا