میں نے ڈوبتے ہوئے سورج سے پوچھا
آج توں اتنا پرکشش کیوں نہیں لگ رہا
ہلکی ہلکی ہوا بھی ویسی ہی چل رہی ہے
اور پرندوں کے غول بھی اپنی واپسی پر رواں ہیں
وہی درختوں کی اوٹ، اور وہی تیری لالی
اور تلسم تاریکی بھی وہی، اور موسموں کا بدلنا بھی وہی ہے
مگر ان سب میں اک اداسی بھری ہوئی ہے
میری طرف دیکھا اور مسکراہتے ہوئے کہنے لگا
بلا میری اتنی جرات کہاں
میری تو ابد سے آخر تک اک ہی روٹین ہے
نہ کبھی بدلا اور نہ کبھی اس کے حکم تک بدلوں گا
یہ تو تیرے اپنے دل کے موسم ہیں جو بدلتے رہتے ہیں
تم کبھی اپنے دل کے موسموں پر غالب تو آنا
تم کشش بھی پاؤ گے، وہی نظارہ، وہی طلسم بھی
یہ سن کر میں پشیمانی سے چل دیا
اندر جھانک کر دیکھا تو دل پر انجانے موسموں کا غلبہ تھا
0 comments:
Post a Comment